Essay on Ishwar Chandra Vidyasagar
Pandit
Ishwar Chandra Vidyasagar was a great
social reformer of Bengal. He was born on 26th September, 1820. His
birth place was Birsingha village in the district of West Midnapore. He
belonged to a poor Hindu Brahmin family. His father was Thakurdas Bandhopadhyay
and mother was Bhagabati Devi.
Ishwar
Chandra had flawless thirst for learning. He had been the best student during
the academic studies. He received scholarships that helped him to continue
further studies. He studied at the Sanskrit College and qualified in different
subjects including Sanskrit Grammar, Dialectics and Literature among others. Apart
from studying his course books, he also read other books extensively to enhance
his knowledge.
At the age of 21, Ishwar
Chandra started working at Fort William College as the Head of Sanskrit department.
Later on, he joined the Government Sanskrit College as Assistant Secretary. He
was appreciated for his knowledge and wisdom. He was awarded the title, Vidyasagar
that literally means ocean of wisdom.
Vidyasagar is
remembered for reconstruction of Bengali Alphabet. He made the Bengali
typography easier. He discarded few difficult Sanskrit phonemes and some
punctuation marks. He added three new letters to match the modern
pronunciation. He revised the Bengali typography into an alphabet of twelve
vowels and forty consonants.
The books of Vidyasagar include Betaal Panchabinsati published in 1847, Bangala-r Itihaas published in 1848, Jeebancharit published in 1850, Bodhadoy published in 1851, Upakramanika in 1851, Borno Porichoy published in 1854, Kotha Mala published in 1856 and Sitar Bonobas published in 1860. He also authored the Bengali Newspaper, Shome Prakash in 1858.
Vidyasagar was an active promoter of Girls education in India. He established many schools to promote girl education. He spread awareness among the people for educating their girl child. He urged them to send their daughters to school so that they can be self sufficient.
Vidyasagar was
deeply rooted to condition of widows in the Indian society. Widows were forced
to live uncoloured life. They were not allowed to remarry
in society. Widow women had to dedicate the rest of their life
serving the family of their deceased husband. Hence, elderly men in society followed the trend of marrying
teenage girls. This trend had increased the number of widowed women in the
society.
Vidyasagar made determined efforts for Widow Remarriage in society. He worked hard to bring about reforms in the lives of widows. He fought for their rights and advocated that they must be treated well. He advocated for widow remarriage. He filed petitions to the British Government to enact laws for improving the condition of widows.
The orthodox people
of society file a counter petition against the reforms of Vidyasagar. But the mission
of Vidyasagar was supported by many notable persons of society including Akshay
Kumar Dutta. The writings of Vidyasagar drew the support of Lord Dalhousie, the
then Governor General of India. Lord Dalhousie legalized the widow remarriage by
passing Hindu Widows’ Remarriage Act 1856.
مضمون ایشور چندر ویدیا ساگر
پنڈت ایشور چندر ویدیا ساگر بنگال کے ایک بہت بڑے معاشرتی مصلح تھے. انکی پیدائش 26 سپتمبر، 1820، میں ہوئی تھی. انکی جائے پیدائش بیرسنگھا گاؤں تھی جوکہ ضلع مغربی مڈنا پور میں واقعہ ہے. وہ ایک غریب ہندو برہمن خاندان سے وابسطہ تھے۔ انکے والد کا نام ٹھاکر باندھو پادھیے اور ماں کا نام بھگابتی دیوی تھا.
اشور چندرا کو تعلیم سے زیادہ دلچسپی تھی. وہ بچپن سے ہی ایک اچھے طالب علم رہے. انہوں نے وظائف حاصل کیے جس کی مدد سے انھیں نے مزید تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے سنسکرت کالج سے تعلیم حاصل کی اور مختلف مضامین میں اولیت حاصل کی۔ اپنی درس گاہوں کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کے علاوہ ، انہونے نے اپنے علم کو بڑھانے کے لئے مزید کتابیں کا بھی مطالہ کیا.
21 سال کی عمر میں ، ایشور چندر نے فورٹ ولیم کالج میں سنسکرت کے شعبہ میں سربراہ کی حیثیت سے ملازمت حاصل کی. بعد میں ، انہو نے گورنمنٹ سنسکرت کالج میں بطور اسسٹنٹ سکریٹری داخلہ لیا۔ ان کے علم اور دانشمندی کی وجہ سے انہیں سراہا گیا۔ انہیں ودیاسگر کے لقب سے نوازا گیا جس کا لفظی معنیٰ ہے علم کا سمندر ہو تا ہے.
ودیا ساگر کو بنگالی حروف تہجی کی تعمیر نو کے لئے یاد کیا جاتا ہے۔ انہو نے بنگالی نقشہ سازی کو آسان بنایا۔ انہونے سنسکرت کے کچھ مشکل اوقاف ہٹایا. انہون نے بنگلہ زبان کو جدید بنانے کلئے تین نئے خطوط شامل کیے۔
ویدیساگر نے بہت سے کتابیں لکھی. بیتال پانچ بساتی, بانگلار اتیہاس، جیبون چارت، بودھادوی، اپاکرمانیکا، برنو پوریچوئی، کوتھا مالا، ستار بناباس انکی اہم کتابیں ہیں. انہو نے بنگلہ اخبار شوم پرکاش کو بھی شائع کیا۔
ودیا ساگرلڑکیوں کی تعلیم کے ایک اہم حامی تھے. انہو نے بہت سے درس گاہیں قائم کی. والدین کو اپنے لڑکیوں کو تعلیم دلانے کے شعور کو اجاگر کیا۔ انہوں نے والدین پر اپنے لڑکیوں کو درس گاہ بھیجنے پر زور دیا تاکہ وہ خود کفیل ہوسکیں۔
ودیا ساگر بیواؤں کی خراب حالت سے کافی ہمدردی تھی. سماج میں بیواؤں کی زندگی بیرنگ و نور تھی. بیواؤں کو سماج میں دوسری شادی کرنے کی اجازت نہیں تھی. انہیں اپنی کنبہ کو سنبھالنے کی ذمہ داری نبھانی پڑتی تھی. اس وقت سماج میں عمر دراز لوگ کم عمر کی لڑکیوں سے شادی کرنا پسند کرتے تھے. اس وجہ سے سماج میں بیواؤں کی تعداد میں اضافہ ہوا.
ودیا ساگر بیواؤں کی دوبارہ شادی کے خواہاں تھے. انہونے بیواؤں کی زندگی میں بہتری لانے کی ہر ممکن کوشش کی. انہونے سماج کے میں بیواؤں کے حقوق کو حاصل کرنے کی غرض سے ایک مہم چلائی. نہوں نے بیوہ کی دوبارہ شادی کی وکالت کی۔ نہونے ابرطانوی حکومت سے مدد کی التجا کی.
کٹر پنتھیوں نے ودیا ساگر کے اصلاح کے خلاف کے خلاف درخواست دائر کی. انکا ساتھ سماج کے چند تعلیم یافتہ شخیتوں نے بھی دیا. ودیا ساگر کے مہم نے اس وقت کے گورنر جنرل لارڈ دلھوزی کو متاثر کیا. لارڈ ڈلہوزی نے 1856 میں بیواؤں کی دوسری شادی کا قانون پاس کیا. اس قانون کے تحت بیواؤں کی دوبارہ شادی ممکن ہو سکی.
Post a Comment